تقطیع

تقطیع کسے کہتے ہیں؟

تقطیع کے لغوی معنی پارہ پارہ کرنے کے ہیں۔عروض کی اصطلاح میں بحر کے ارکان پر شعر کے اجزا کو وزن کرنے کا نام تقطیع ہے۔چوں کہ بحر کے ارکان سے ہم وزن کرنے کے لیے الفاظِ شعر کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے جاتے ہیں اس وجہ سے اس عمل کو تقطیع کے نام سے جانا جاتا ہے۔تقطیع میں متحرک کے مقابل متحرک اور ساکن کے مقابل ساکن کا واقع ہونا ضروری ہے۔جیسے’’ عاتکہ عائشہ عابدہ عالیہ ‘‘ حرکات وسکنات کے اعتبار سے بروزن ’’ فَاعِلُن فَاعِلُن فَاعِلُن فَاعِلُن ‘‘ہیں۔واضح ہوکہ زبر زیر اور پیش وزن میں یکساں ہیں۔عروضی اعتبار سے یہ تینوں اعراب ایک دوسرے سے کم یا بیش نہیں ہیں بلکہ ہم وزن ہیں۔
علم عروض کی رو سے شعر گوئی کیلیے منتخب کی گئی بحر کے ارکان کے حرکات وسکنات کے مقابل کہے گئے شعر کے الفاظ کے حرکات وسکنات ملفوظی اعتبارسے یکساں ہونے ضروری ہیں۔مثالوں کے ذریعے وضاحت کیجئے؟
حروفِ ملفوظی ان حروف کو کہا جاتا ہے جو زبان سے ادا ہوتے ہیں یعنی تلفظ میں آتے ہیں ۔مثلاً دل،عشق،درد،وصل ،ہجروغیرہ ان تمام الفاظ میں جتنے حروف ہیں وہ زبان سے ادا ہوتے ہیں اس لیے ان الفاظ میں ہر حرف ملفوظی ہے ۔جو حرف لکھا جائے اور پڑھنے میں بھی آئے اسے مکتوبی ملفوظی کہتے ہیں۔
بعض الفاظ ایسے ہیں جن کے سارے کے سارے حروف ملفوظی نہیں ہوتے مثلاًعبدالرحمٰن،عبدالسلام ،ابوالکلام ،علی الصباح،علی العموم،علی الخصوص اوربالکل وغیرہ ایسے ہی الفاظ یا مرکب الفاظ کے زمرے میں آتے ہیں جن کے تمام حروف تلفظ میں نہیں آتے۔ عبدالرحمٰن اورعبدالسلام میں دال کے بعد جو الف اور ل ہیں وہ تلفظ میں نہیں آتے ،یعنی انھیں عبدُررحمٰن، عبدس سلام پڑھا جاتا ہے ۔اسی طرح علی الصباح،علی العموم اورعلی الخصوص میں ی اور الف تلفظ میں نہیں آتے ہیں اور انھیں علص صباح ،علل عموم ،علل خصوص پڑھا جاتا ہے ۔آخری لفظ ’بالکل ‘ میں الف ملفوظی نہیں ہے یعنی اسے ’بلکل ‘ پڑھا جاتا ہے۔ ایسے تمام حروف جو لکھے تو جاتے ہیں مگر پڑھے نہیں جاتے انھیں مکتوبی غیر ملفوظی کہتے ہیں۔حروفِ غیر ملفوظہ کو تقطیع میں شمار نہیں کیا جاتا۔
بعض حروف ایسے ہوتے ہیں جو لکھے نہیں جاتے لیکن پڑھے جاتے ہیں یعنی تلفظ میں آتے ہیں وہ تعداد میں چھے ہیں۔
(۱) الف مدّہ (آ): جس الف مدہوتا ہے اسے تقطیع میں ہمیشہ دوحرفی(اَاْ) شمار کیا جاتا ہے ۔پہلاالف متحرک ہوتا ہے اور دوسراالف ساکن ہوتا ہے۔ مثلاً آل،آم، آن،مآل،مآب اور آگ وغیرہ۔
آگ ہے اولادِ ابراہیم ہے نمرود ہے کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے
مآلِ سوزِ غم ہائے نہانی دیکھتے جا ؤ بھڑک اٹھی ہے شمعِ زندگانی دیکھتے جاؤ (فانی)
(۲)واو مدّہ(ؤ): جس واو پر ہمزہ ہوتا ہے اسے دو واؤ(وُوْ)کے برابرشمارکیا جاتا ہے ۔اس میں پہلا واو متحرک اور دوسرا ساکن ہوتا ہے۔
مثلاً سنے جاتے نہ تھے تم سے مرے دن رات کے شکوے کفن سرکاؤ میری بے زبانی دیکھتے جاؤ
اس شعر میں ’جاؤ‘میں ’ؤ‘ دو واو کے برابر ہے پہلا متحرک ہے اور دوسرا ساکن ہے۔
ضرورتِ شعری کے تحت کبھی کبھی دوسرے واو کو ساقط کردیا جاتا ہے ۔جیسے اسی شعر میں ’سرکاؤ‘ میں ہے ۔اس میں ایک ہی واو جو کہ متحرک ہے تقطیع میں شمار کیا جائے گا۔کبھی کبھی ضرورتِ شعری کے تحت دوسرے واو کو ساقط بھی کیا جاسکتا ہے؂
نہ گنواؤ ناوکِ نیم کش دلِ ریزہ ریزہ گنوادیا جو بچے ہیں سنگ سمیٹ لوتنِ داغ داغ لٹا دیا (فیض)ؔ
’گنواؤ‘ میں دوسرا واو تقطیع میں شمار نہیں کیا گیا ہے۔
دکھاؤ،سناؤ منگاؤ،آؤ جاؤاورلاؤ میں واو دو حرفی ہے پہلا واومتحرک اور دوسراواو ساکن ہے۔
(۳) یائے بطنی:اگردوالفاظ کے درمیان پہلے لفظ کے آخری حرف کے نیچے زیر (کسرہ)کا اعراب ہو اور اسے کھینچ کر پڑھا جائے تووہ ’ے‘ میں تبدیل ہوجاتا ہے ۔زیرکو کھینچ کر پڑھنے سے برآمد ہونے والی’ے‘ کو یائے بطنی یا یائے تحتانی کہا جاتا ہے۔مثلاً’بنامِ دل‘ کھینچ کر پڑھنے سے ’بنامے دل ‘اور’ اہلِ کرم‘ کھینچ کر پڑھنے سے’ اہلے کرم‘ ہوجاتا ہے۔
بنامِ کوچۂ دلدار گل برسے کہ سنگ آئے (مجروحؔ )
اس مصرعے کی تقطیع کے دوران ’بنامِ‘ کو’ بنامے‘ لکھا جائے گا کیوں م کے زیر کو کھینچ کر پڑھا گیا ہے۔
؂تماشائے اہلِ کرم دیکھتے ہیں (غالبؔ )
اس مصرعے کی تقطیع کے دوران’ اہلِ ‘کو ’اہلے‘ لکھا جائے گا کیوں ل کے زیر کو کھینچ کر پڑھا گیا ہے۔
(۴)حروفِ علت بطنی :عربی زبان میں بہت سے الفاظ ایسے ہیں جن میں الف ،واواور یے لکھے نہیں جاتے (بلکہ کھڑا زبر (ٰ)،کھڑا زیر اور الٹا پیش ( ٗ) کی علا متوں کے ذریعے ظاہر کیے جاتے ہیں ) لیکن بحیثیتِ حرف تقطیع میں شمار کیے جاتے ہیں۔ایسے تمام حروف کو حروفِ علت بطنی کہاجاتا ہے۔مثلاًدورانِ تقطیع وحدہٗ کو وحدہو،لاشریکَ لہٗ کو لا شریکَ لہو،رحمٰن کو رحمان،بعینہٖ کو بِعَیْنِہِیْ لکھا جائے گا۔
یعنی دورانِ تقطیع کھڑا زبر کو الف ،کھڑا زیر کو’ یے‘اور الٹا پیش کو’ واو‘شمار کیا جاتا ہے۔
(۵)حروفِ مشدد:جن حروف پر تشدید ہوتی ہے انھیں دوبار پڑھا جاتا ہے ۔جس حرف پرتشدید ہووہ تلفظ میں پہلی بار ساکن اور دوسری بارمتحرک ہوتا ہے۔مثلاً محّبت (مَ حَ بْ بَ تْ )میں’ب‘اور مسرّت (مَ سَ رْ رَتْ) میں ’ر‘زبان سے اول ساکن شکل میں ادا ہوتے ہیں بعد میں متحرک صورت میں تلفظ میں آتے ہیں ۔
(۶)حروفِ منوّن: دوزبر( ً )،دوزیر( ٍ ) اور دوپیش (’‘)کوتنوین کہتے ہیں ۔یہ علامتیں جن حروف پر ہوتی ہیں تقطیع میں ان حروف کے آگے نون کا اضافہ کردیا جاتا ہے۔دورانِ تقطیع فوراً کو فورن،فرداً کو فردن ،جمیل’‘ کو جمیلن نور’‘ کو نورن اور نسلً بعد نسلٍ کو نسلن بعد نسلِن لکھا جائے گا۔
*ساکن
دوساکن جس لفظ کے آخر میں دو ساکن حروف ہوتے ہیں اس لفظ کا دوسراساکن حرف متحرک ہوجا تا ہے۔جیسے حُسْنْ،عِشْقْ اور دَردْ میں ن ق اور د  دوسرا ساکن ہونے کی وجہ سے متحرک ہوجائیں گے۔
تین ساکن :بعض الفاظ ایسے ہیں جن کے آخر میں متواتر تین ساکن حروف ہوتے ہیں اس طرح کے الفاظ میں دورانِ تقطیع تیسرا ساکن ساقط ہوجاتا ہے یعنی وہ تقطیع میں شمار نہیں کیا جاتا اور دوسرا ساکن متحرک ہوجاتا ہے۔مثلاً زیست،دوست،کاشت اور راست تقطیع میں بالترتیب زیس،دوس،کاش اور راس شمار کئے جائیں گے۔
نکتہ : وہ الفاظ جن کے آخرمیں متواترتین حروف ساکن ہوتے ہیں اگر ان الفاظ کے فوراً بعد ’’واوِ معطوفہ‘‘ ہو تو ایسی صورت میں تیسرا ساکن متحرک ہوجائے گا۔مثلاً زیست ومرگ،دوست ودشمن اور راست وکژ وغیرہ ۔ان الفاظ میں زیست ،دوست اور راست کاتیسراساکن حرف’ت‘ واو معطوفہ کے قبل ہونے کے سبب متحرک ہوگیا ہے۔
چارساکن : کچھ الفاظ ایسے ہیں جن کے آخر میں لگاتار چار ساکن حروف ہوتے ہیں ،دورانِ تقطیع اسطرح کے الفاظ کے آخر کے دونوں ساکن ساقط ہوجاتے ہیں اوردوسرا ساکن متحرک ہوجا تا ہے۔جیسے مہاراشٹر،سوراشٹر اور اسپارکس وغیرہ ان الفاظ میں صرف مہاراش،سوراش اور اسپارکوتقطیع میں شمارکیا جائے گا،شٹر،شٹراورکس تقطیع میں محسوب نہیں ہوں گے۔
نکتہ :ایسے تمام ساکن حروف جودوسرا ساکن ہونے کے سبب متحرک ہوجاتے ہیں ،وہ جب کسی مصرع یا شعر کے آخری حصے میں ہوں گے توانھیں متحرک نہیں بلکہ ساکن ہی شمارکیا جائے گا۔مثلاًاس شعر میں ’’د ‘‘ کو متحرک نہیں ساکن شمار کیا جائے گا؂
لائی ہے یاد کوئی دلِ لخت لخت کو سوآفتاب نکلے ہیں دن ڈوبنے کے بعد

* یہ،وہ ،میں،تو،جو ،سو،کو، وغیرہ کو تقطیع میں کہیں دو حرفی شمار کیا جاتا ہے کہیں یک حرفی۔
*کیا ،پیار کی ’ی‘ کو تقطیع میں شمار نہیں کیا جاتا۔مگر کام تو کیا، کے’ کیا‘ میں جو ’ی‘ ہے تقطیع میں شمار کی جائے گی۔
*بھ ، تھ،ٹھ ،جھ،چھ، دھ،کھ، گھ،وغیرہ حروف یک حرفی شمار کیے جائیں گے ،یعنی دھنک، دھاگا میں ’د‘ کو الگ اور’ھ ‘کو الگ نہیں شمار کیا جائے گا۔
*کچھ الفاظ ایسے ہیں جن کے دو یا دوسے زائد تلفظ ہمارے یہاں رائج ہیں۔ایسے کچھ الفاظ یہ ہیں ؂
طَرْح،طَرَح۔آئینہ،آئنہ،آئینَ،آئنَ۔خِضْر،خِضَر۔نشّہ ، نشہ۔میری،مری،میرِ،مِرِ۔تیری،تری،تیرِ،ترِ۔
کوئی،کُئی،کوءِ۔منار،مینار۔امّید،امید۔حدِّ،حدِ۔ابراہیم،براہیم۔جبرئیل،جبریل۔گناہ،گنہ۔راہ،رہ۔
سپاہ،سپہ۔سیاہ،سیہ۔نگاہ،نگہ۔ماہ،مہ۔چاہ،چہ۔شاہ،شہ۔بچّہ،بچہ ۔میرا،مرا،میرَ،مِرَ۔تیرا،ترا،تیرَ،ترَ

Comments

Popular posts from this blog

اردو ادب میں استعمال ہونے والی بحریں

تسکین مزاحف

بحر جمیل مثمن سالم تقطیع